Mass grave un-earthed at a former Taliban Camp in Khyber Pakhtunkhwa. IRESK
April 12, 2021
Dr. Eyal Be’eri talks to Afghan Refugees in Switzerland
November 13, 2021
Show all

سچ لکھوں گا تو آپ برا تو نہیں منائیں گے ۔ مجھے گالیاں تو نہیں دوں گے اپنے بارے میں اپنے قوم کے بارے

·  ۔تحریر ؛ سعیداانور داوڑ

میں پشتونوں کے لئے بہت فکرمند ہوں ۔ مہذب دنیا نے بہت ترقی کی ہیں ۔ وہاں انسانیت کی بہت قدر و منزلت ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے پشتون ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں اور بے اتفاقی کے شکار ہوچکے ہیں ۔ ایک دوسرے کا اخترام ، پیار و محبت ، شفقت اور نرم لہجہ ختم ہو چکا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے کہ ایک انسان کا قتل گویا ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہیں ۔ اسلام ہمیں بھائی چارے اور ترقی کا درس دیتا ہے ۔ لیکن ہم فتنہ و فساد کی طرف چلے گئے ہیں ۔ میری باتیں تلخ ضرور ہیں ۔ لیکن یہ ایک حقیقی مرض کی تشخیص ہے ۔ ہمارے معاشرے کے یہ امراض اس وقت دور ہوسکیں گے ۔ جب ہم اس پر کھل کر بات کریں گے ۔ اگر چھپ رہیں گے تو مرض بڑھتا جائے گا ۔ اور سوسائٹی مکمل طور پر collapsed ہو جائے گی ۔ اصلاحات لانا وقت کا تقاضا ہے ۔ This is high time to bring reforms in pashtun society . اگر پشتون قوم کی خامیوں اور اندرونی مسائل پر نہیں لکھا گیا تو ان کی اصلاح کا کوئی راستہ نہیں نکل سکے گا ۔ اس تحریر کا مقصد پشتون قوم کی تذلیل کرنا نہیں بلکہ ان مسائل کی نشاندھی کرنا ہے ۔ تاکہ پہلے مرض کا تشخیص تو ہو تو ان کا علاج اور حل بھی معلوم کیا جاسکے گا ۔ پشتون سوسائٹی مکمل طور پر زوال کا شکار ہے ۔ اور پشتون بہت پستی میں گر چکا ہے ۔ پشتون سیاسی ، سماجی ، معاشی اور اخلاقی ہر لحاظ سے پست ترین سطح پر پہنچ چکا ہیں ۔ دنیا میں اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہیں ۔ امارات ، دوبئی سعودی میں سب سے نچلے سطح کے کام پشتون کرتے ہیں ۔ آئیں پشتون قوم کے رویوں پر پہلے بات کرتے ہیں ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں پشتون سب سے زیادہ ذلیل قوم ہے ۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارتگری اور خون پشتون کرتے ہیں۔ یہ واحد قوم ہے ۔ جو قتل کو عین ثواب سمجھتے ہیں اور قاتل کوغیرت مند اور بہادر گردانتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی ہے اس نے 13 قتل کئے ہیں ۔ ان کی لوگ سب سے ذیادہ قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ گاؤں کا سب سے بڑا ملک بنا ہوا ہے ۔ یہ کلچر صرف آج کا نہیں ہے ۔ بہت پہلے سے چلا آرہا ہے ۔ میرے سروے کے مطابق قبائلی علاقوں میں قاتل کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہیں ۔ ہمارے آباؤ اجداد قتل و قتال کے پیچھے کشمیر ، افغانستان اور چیچنیا تک گئے ۔ اگر کوئی جنگ نہ ہو تو یہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ دشمنیاں بھی پشتونوں کے درمیان ہیں ۔ آج تک جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں ۔ ان میں ایک خوکش حملہ بھی کسی انگریز ، عیسائی ،یہودی ، ہندو یا سکھ پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، یا بلوچ نے نہیں کیا ہے ۔ بلکہ 99 فیصد خودکش حملے پشتونوں نے کئے ہیں ۔ اور حیرانگی کی بات یہ کہ ان حملوں میں اکثریت پشتون لقمہ اجل بنے ہیں ۔ اجرتی قاتل بھی سب سے زیادہ پشتون ہیں ۔ جہالت کی یہ انتہا ہیں ۔ کہ فرقہ وریت کی جنگ میں یعنی پشتون شیعہ سنی اور طالبان اور ملی فوج کے درمیان لڑائی میں دونوں طرف مرنے والے پشتونوں کو شہید کا درجہ دیتے ہیں ۔ دونوں طرف لڑائی کے دوران نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کرتے ہیں ۔ اور مرنے کی صورت میں فاتحانہ خوانی میں لوگ لواحقین کو کہتے ہیں کہ مبارک ہو آپ کا بیٹا جنت چلا گیا ۔ یعنی کسی جوان کے قتل پر دعا معفرت کی بجائے مبارکباد کے پیغامات شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب سے زیادہ حسد jelousy کے لئے مشہور ہیں ۔ یہ اپنے کزن اور سکنڈ کزن کو بچپن سے نیم دشمن تصور کرتے ہیں ۔ ہماری زبان میں اسے تربور کہتے ہیں ۔ اگران کا تربور ترقی کرتا ہے تو یہ ان کی راہ میں طرح طرح کے رکاوٹیں کھڑی کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض حالتوں میں رات کے وقت ان کے قتل کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔ پشتون پوری دنیا میں تھرڈ کلاس جاب کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی اپنی سرزمین پر نہ کوئی صنعت ہے نہ حرفت ۔ یہ پنجاب میں سیٹھوں کے گھروں میں چوکیداری ، خان سماں ، ڈرئیوری وغیرہ کرتے ہیں ۔ پنڈی ، لاہور اور کراچی کے سڑکوں پر واسکٹ ، بنیان یا تولئے بیچتے ہیں ۔ پنجاب کے ہر گلی میں پالش کا ڈبہ اٹھائے لوگوں کے جوتے پالش کرتے ہیں یا موچی بن کر پرانے جوتے مرمت کرتے ہیں ۔ ابوظبی میں انڈین یا پنجابی Bosses کے نیچے کمپنیوں میں معمولی تنخواہوں پر مزدوری کرتے ہیں یا مجاری یعنی لیٹرینوں اورمین ہول سے گندہ پانی صحرا میں چھوڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ اپنے ملک میں سمگلنگ ، چرس وغیرہ کے کاروبار کے لئے ذیادہ مشہور ہیں ۔ اس وقت پاکستان کے تمام جیلوں میں اکثریت پشتونوں کی ہیں ۔ پشتونوں کی باتوں سے انتہا پسندی ٹپکتی ہے ۔ کبھی آپ ان کے آپس کی ڈسکشن کو دیکھیں یہ ایک دوسرے کو ایسی غلیظ گالیاں دیتے ہیں کہ توبہ و استغفار ۔ انتہائی سخت مزاج بنے ہوئے ہیں ۔ انتہائی درجے کی عدم برداشت کی سوسائٹی ہیں ۔ معمولی معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں ۔ لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہیں ۔ پوری دنیا میں سائنس و تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں ۔ شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہیں ۔ بچوں کی تربیت گاڑیوں کی ورکشاپس یا لاری اڈوں میں بچے جوان ہوجاتے ہیں ۔ پشتون تعلیم نوکری کی عرض سے کرتے ہیں ۔ اکثر عورتیں ان پڑھ اور جاہل ہیں ۔ صفائی ستھرائی بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرتے ۔ کپڑے بھی کئ دن بعد بدلتے ہیں ۔ دیہاتوں میں بچے انتہائی گندے ہوتے ہیں ۔ ٹوتھ پیسٹ کو گنا اور مضر صحت سمجھتے ہیں ۔ نسوار کی وجہ سے اکثر لوگوں کے منہ سے بدبو آتی ہیں ۔ گھروں میں باتھ روم اور کچن بہت معمولی لیول کے اور گندے ہوتے ہیں ۔ کوئی کارپیٹ یا اچھی قسم کا فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس گندی اور پسماندہ زندگی کو وہ سادہ زندگی کہتے ہیں ۔ اکثر پشتون اپنے اوپر اور بچوں کے اوپر معیاری زندگی کے واسطے پیسے خرچ نہیں کرتے ۔ بچت پر ذیادہ زور دیتے ہیں ۔ نتیجتاً low level کی زندگی گزارتے ہیں اکثر پشتون ترقی پسند سوچ کے خلاف ہیں ۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ ٹی وی دیکھنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ اور اخبار کو پڑھتے نہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے ۔ اس لئے اتنے زیادہ لکھنے پڑھنے یا ترقی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کل میں نے طالبان کی ایک ویڈیو دیکھی ۔ وہ پشتون تھے ۔ اور انہوں نے 4 پشتون مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر کاٹ لئے اور ان سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنے لگے ۔ ایک دوسری ویڈیو دیکھی جس میں کچھ موٹے موٹے طالبان ایک عورت کو بہت سخت مار رہے ہیں اور وہ چیخ رہی ہیں ۔ وہاں پر سینکڑوں پشتون اس عورت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور انجوائے کر رہے ہیں ۔ ایک تیسری ویڈیو دیکھی جس میں ایک آدمی کے ہاتھ پیچھے سے باندھ کر ان کو سو سے زیادہ کوڑے مار دئیے جاتے ہیں ۔ سب سے افسوسناک بات یہ کہ یہ سارے کام اسلام کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔ خالانکہ اوریجنل اسلام ایسا نہیں ہے ۔ اسلام بہت اچھا اور انسان کی بھلائی کا دین ہے ۔ پشتون قوم کی اصلاح کے لئے تمام دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آگے آئے ۔ نئ نسل کی اصلاح کے لئے کردار ادا کریں ۔ ان کو extremism سے نکالیں اور محبت ، ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کریں ۔ میری باتیں تلخ ضرور ہیں ۔ لیکن یہ ایک حقیقی مرض کی تشخیص ہے ۔ ہمارے معاشرے کے یہ امراض اس وقت دور ہوسکیں گے ۔ جب ہم اس پر کھل کر بات کریں گے ۔ اگر چھپ رہیں گے تو مرض بڑھتا جائے گا ۔ اور سوسائٹی مکمل طور پر collapsed ہو جائے گی ۔ اصلاحات لانا وقت کا تقاضا ہے ۔ This is high time to bring reforms in pashtun society .

Exit mobile version